شائد مرے بدن کی ............. رُسوائی چاہتا ہے
دروازہ میرے گھر کا................. بینائی چاہتا ہے
اوقاتِ ضبط اس کو.............. اے چشمِ تر بتا دے
یہ دل سمندروں کی.............. گہرائی چاہتا ہے
دروازہ میرے گھر کا................. بینائی چاہتا ہے
اوقاتِ ضبط اس کو.............. اے چشمِ تر بتا دے
یہ دل سمندروں کی.............. گہرائی چاہتا ہے
شہروں میں وہ گھٹن ہے،اس دور میں کہ انساں
گمنام جنگلوں کی................. پُروائی چاہتا ہے
گمنام جنگلوں کی................. پُروائی چاہتا ہے
کچھ زلزلے سمو کر زنجیر.......... کی کھنک میں
اِک رقصِ والہانہ................... سودائی چاہتا ہے
اِک رقصِ والہانہ...................
کچھ اس لیے بھی اپنے چرچے ہیں شہر بھر میں
اک پارسا ہماری................... رسوائی چاہتا ہے
اک پارسا ہماری................... رسوائی چاہتا ہے
ہر شخص کی جبیں پر....... کرتے ہیں رقص تارے
ہر شخص زندگی کی............. رعنائی چاہتا ہے
ہر شخص زندگی کی............. رعنائی چاہتا ہے
اب چھوڑ ساتھ میرا اے.................. یادِ نوجوانی
اِس عمر کا مسافر................. تنہائی چاہتا ہے
اِس عمر کا مسافر................. تنہائی چاہتا ہے
میں جب قتیل اپنا سب.......... کُچھ لُٹا چُکا ہوں
اب میرا پیار مُجھ سے............. دانائی چاہتا ہے
اب میرا پیار مُجھ سے............. دانائی چاہتا ہے
0 comments Blogger 0 Facebook
Post a Comment