اس ہوس میں کہ پکارے جرسِ گل کی صدا
دشت و صحرا میں صبا پھرتی ہے یوں آوارہ
جس طرح پھرتے ہیں ہم اہلِ جنوں آوارہ
ہم پہ وارفتگیءِ ہوش کی تہمت نہ دھرو
ہم کہ رمّازِ رمّوزِ غم پنہائی میں
اپنی گردن پہ بھی ہے رشتہء فگن خاطرِ دوست
ہم بھی شوقِ راہِ دلدار کے زندانی ہیں
جب بھی ابروےْ درِ یار نے ارشاد کیا
جس بیاباں میں بھی ہم ہوں گے چلے آئیں گے
در کھلا دیکھا تو پھر شاید تمھیں دیکھ سکیں
بند ہو گا تو سدا دے کے چلے جائیں گے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 comments Blogger 0 Facebook
Post a Comment