اپنا خاکہ لگتا ہوں
ایک تماشا لگتا ہوں
آئینوں کو زنگ لگا
اب میں کیسا لگتا ہوں
اب میں کوئی شخص نہیں
اس کا سایہ لگتا ہوں
سارے رشتے تشنہ ہیں
کیا میں دریا لگتا ہوں
اس سے گلے مل کر خود کو
تنہا تنہا لگتا ہوں
خود کو میں سب آنکھوں میں
دھندلا دھندلا لگتا ہوں
میں ہر لمحہ اس گھر سے
جانے والا لگتا ہوں
کیا ہوۓ وہ سب لوگ کہ میں
سونا سونا لگتا ہوں
مصلحت اس میں کیا ہے میری
ٹوٹا پھوٹا لگتا ہوں
کیا تم کو اس حال میں بھی
میں دنیا کا لگتا ہوں
کب کا روگی ہوں ویسے
شہر_ مسیحا لگتا ہوں
میرا تالو تر کر دو
سچ مچ پیاسا لگتا ہوں
مجھ سے کما لو کچھ پیسے
رندہ مردہ لگتا ہوں
میں نے سہے ہیں مکر اپنے
اب بے چارہ لگتا ہوں


0 comments Blogger 0 Facebook

Post a Comment

 
Poetry Corner © 2013. All Rights Reserved. Share on Themes24x7.